19 Oct 2005

Urdu Short Story Sherni By M.Mubin

Submitted by mmubin

افسانہ

شیرنی

از:۔ ایم مبین

جب وہ گھر سےنکلی تو نو بج رہےتھے۔ تیز لوکل تو ملنےسےرہی دھیمی لوکل سےہی جانا پڑےگا ۔ وہ بھی وقت پر مل گئی تو ٹھیک ۔ ورنہ یہ تو طےہےکہ آج پھر تاخیر سےآفس پہنچےگی ۔ اور لیٹ آفس آنےکا مطلب ؟ اس خیال کےساتھ ہی اس کی پیشانی پر بل پڑ گئےاور بھویں تن گئیں ۔ آنکھوں کےسامنےباس کا چہرہ گھوم گیا ۔ اور کانوں میں اس کی گرجدار آواز سنائی دی ۔
” مسز مہاترے! آپ آج پھر لیٹ آئیں ہیں ۔ میرےباربار تاکید کرنےپربھی آپ روز لیٹ آتی ہیں ۔ آپ کی اس ڈھٹائی پر مجھےغصہ آتا ہے۔ آپ کو شرم آنی چاہیئے۔ بار بار تاکید کرنےپر بھی آپ وہی حرکت کرتی ہیں ۔ آج کےبعد میں آپ سےکوئی رعایت نہیں کروں گا ۔
کوئی اس سےبڑی تیزی سےٹکرایا تھا اور اس کےخیالوں کا تسلسل ٹوٹ گیا تھا ۔ وہ سڑک پر تھی ۔ بھیڑ اور ٹریفک سےبھری سڑک اسےپار کرنی تھی ۔ اس لئےاپنےہوش و حواس میں رہنا بہت ضروری تھا ۔ غائب دماغ رہتےہوئےسڑک پار کرنےکی کوشش میں کوئی بھی حادثہ ہوسکتا تھا ۔ جو اس سےٹکرایا تھا وہ تو کہیں دور چلا گیا تھا لیکن اس کےٹکرانےسےاس پر غصہ نہیں آیا تھا ۔
اچھا ہوا وہ اس سےٹکرا گئی ۔ اس کےخیالوں کا سلسلہ تو ٹوٹ گیا اور وہ ہوش کی دنیا میں واپس آگئی ۔ ورنہ تناو¿ میں وہ اپنےانہی خیالوں میں کھوئی رہتی اور بےخیالی میں سڑک پار کرنےکی کوشش میں کسی حادثہ کا شکار ہوجاتی ۔ اس نےچاروں طرف چوکنا ہوکر دیکھا ۔ سڑک کےدونوں طرف کی گاڑیاں اتنی دور تھیں کہ وہ آسانی سےدوڑ کر سڑک پار کرسکتی تھی ۔
سگنل تک رکنےکا مطلب تھا خود کو اور دوچار منٹ لیٹ کرنا ۔ اس خیال کےآتےہی اس نےسڑک پار کرنےکا فیصلہ کرلیا اور دوڑتی ہوئی سڑک کی دوسری طرف پہنچ گئی ۔ دونوں طرف سےآنےوالی گاڑیاں اس کےکافی قریب ہوگئی تھیں ۔ ذرا سی تاخیر یا سستی کسی حادثہ کا باعث بن سکتی تھی ۔ لیکن اس نےاپنےآپ کو پوری طرح اس کےلئےتیار کرلیا تھا ۔ کوئی حادثہ نہ ہو اس بات کا پورا خیال رکھا تھا ۔ سڑک پار کرکےوہ اس تنگ سی گلی میں داخل ہوئی ۔ جس کو پار کرنےکےبعد ریلوےاسٹیشن کی حد شروع ہوتی تھی ۔ گلی میں قدم رکھتےہی اس کےدل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں ۔ سانس پھولنےلگی اور ماتھےپہ پسینےکی بوندیں ابھر آئیں اس نےہاتھ میں پکڑےرومال سےپیشانی پر آئی پسینےکی بوندیں صاف کیں اور پھولی ہوئی سانسوں پر قابو پانےکی کوشش کرنےلگی۔ لیکن اسےعلم تھا نہ پھولی ہوئی سانسوں پر وہ قابو پاسکےگی اور نہ ہی دل کےدھڑکنےکی رفتار معمول پر آئےگی ۔
ذہن میں کھوٹا کا خیال جو آگیا تھا ۔ اسےپورا یقین تھا ۔ گلی کےدرمیان میں اس پان کی دکان کےپاس کھوٹا کرسی لگا کر بیٹھا ہوگا ۔ اسےآتا دیکھ کر بھدےانداز میں مسکرائےگا اور اس پر کوئی گندہ فقرہ کسےگا ۔ کھوٹا کا یہ روز کا معمول تھا ۔ صبح شام اس جگہ وہ اس کا انتظار کرتا تھا ۔ اسےپتہ تھا سویرےوہ کب آفس جاتی ہےاور شام کو اب واپس آفس سےگھر جاتی ہے۔ اس کےآنےجانےکا راستہ وہی ہے۔ ریلوےاسٹیشن جانےکا اور ریلوےاسٹیشن سےگھر جانےکا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ ایک ہےبھی تو وہ اتنی دور کا راستہ ہےکہ اس راستےسےجانےکا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا ہے۔ اس لئےکھوٹا اسی راستےپر بیٹھا اس کا انتظار کرتا رہتا تھا اور اسےدیکھتےہی کوئی بھدا سا فقرہ ہوا میں اچھالتا تھا ۔
” ہائےڈارلنگ ! بہت اچھی لگ رہی ہو ۔ یہ آفس ‘ نوکری وکری چھوڑو ۔ مجھےخوش کردیا کرو ۔ ہر مہینہ اتنےپیسےدےدیا کروں گا جو نوکری سےتین چار مہینےمیں بھی نہیں ملتےہوں گے۔ آو¿ آج کسی ہوٹل میں چلتےہیں ۔ چلتی ہو ؟ آج شیریٹن ہوٹل میں پہلےہی سےاپنا کمرہ بک ہے۔ نوکری کرتےہوئےزندگی بھر شیریٹن ہوٹل کا دروازہ بھی نہیں دیکھ سکوگی ۔ آج ہماری بدولت اس میں دن گزار کر دیکھو ۔ “
کھوٹا کےہر فقرےکےساتھ اسےایسا محسوس ہوتا تھا کہ ایک نیزہ آکر اس کےدل میں چبھ گیا ہے۔ دل کی دھڑکنیں تیز ہوجاتیں تھیں اور آنکھوں کےسامنےاندھیرا چھانےلگتا تھا ۔ تیز چلنےکی کوشش میں قدم لڑکھڑانےلگتےتھے۔ لیکن وہ جان توڑ کوشش کرکےتیز قدموں سےکھوٹا کی نظروں سےدور ہوجانےکی کوشش کرتی تھی ۔
کھوٹا اس علاقےکا مانا ہوا غنڈہ تھا ۔ اس علاقےکا بچہ بچہ اس سےواقف تھا ۔ شراب ‘ جوئے‘ عصمت فروشی کےاڈےچلانا ‘ ہفتہ وصولی ‘ سپاری وصولی ‘ اغوا ‘ قتل اور مار پیٹ وغیرہ ۔ غرض کہ ایسا کوئی کام نہیں تھا جو وہ نہیں کرتا تھا یا اس طرح کےمعاملوں میں ملوث نہیں تھا ۔ وہ جو چاہتا کر گزرتا تھا کبھی پولس کی گرفت میں نہیں آتا تھا ۔ اگر کسی معاملےمیں پھنس بھی گیا تو اس کےاثر و رسوخ کی وجہ سےپولس کو اسےدو دنوں میں چھوڑنا پڑتا تھا ۔
اس کھوٹا کا دل اس پر آگیا تھا ۔ اس پر اس مایا مہاترےپر ایک معمولی ایک چھوٹی سی پرائیویٹ آفس میں کام کرنےوالی ایک بچےکی ماں پر پہلےتو کھوٹا اسےصرف گھورا کرتا تھا ۔ پھر جب اسےاس کےآنےجانےکا وقت اور راستہ معلوم ہوگیا تو وہ روزانہ اس راستےپر اس سےملنےلگا ۔
روزانہ اسےدیکھ کر مسکراتا اور اس پرگندےگندےفقروںکی بارش کرنےلگتا ۔ کھوٹا کی ان حرکتوں سےوہ دہشت زدہ سی ہوگئی تھی ۔ اسےیہ اندازہ تو ہوگیا تھا کہ کھوٹا کےدل میں کیا ہے۔ اور اسےیہ پورا یقین تھا کہ جو اس کےدل میں ہےکھوٹا ایک دن اسےپورا کرکےہی رہےگا ۔ اس تصور سےہی وہ کانپ اٹھتی تھی ۔ اگر کھوٹا نےاپنےدل کی مراد پوری کرڈالی یا پوری کرنےکی کوشش کی تو ؟ اس تصور سےہی اس کی جان نکل جاتی تھی ۔
” نہیں ! نہیں ! ایسا نہیں ہوسکتا ۔ اگر کھوٹا نےمیرےساتھ ایسا کچھ کردیا تو میں کسی کو منہ دکھانےکےقابل نہیں رہوں گی ۔ میں زندہ نہیں رہ پاو¿ں گی ۔ “ اسےاس بات کا علم تھا کہ وہ اتنی خوبصورت ہےکہ کھوٹا جیسےلوگ اسےدیکھ کر بہک سکتےہیں ۔ دوسرےہزاروں لوگ اسےدیکھ کر ایسا کوئی خیال دل میں لاتےبھی تو اسےکوئی پرواہ نہیں تھی کیونکہ اسےپورا یقین تھا کہ وہ کبھی اس خیال کو پورا کرنےکی جرا¿ت نہیں کرپائیں گے۔
لیکن کھوٹا ؟ ہےبھگوان ! وہ جو سوچ لےدنیا کی کوئی بھی طاقت اسےاس کےسوچےکام کو روکنےکی کوشش نہیں کرسکتی تھی ۔ اور وہ آتےجاتےکھوٹا کی دہشت کا شکار ہوتی تھی ۔ اور اس دن تو کھوٹا نےحد کردی ۔ نا صرف راستہ روک کر کھڑا ہوگیا بلکہ اس کی کلائی بھی پکڑ لی ۔
” بہت زیادہ اکڑتی ہو ۔ اپنےآپ کو کیا سمجھتی ہو ۔ تمہیں معلوم نہیں کھوٹا سےتمہارا پالا پڑا ہے۔ ایسی اکڑ نکالوں گا کہ زندگی بھر یاد رکھوگی ۔ ساری اکڑ نکل جائےگی ۔ “
” چھوڑ دو مجھے۔ “ اس کی آنکھوں میں خوف سےآنسو آگئے۔ اور وہ کھوٹا کےہاتھوں سےاپنی کلائی چھڑانےکی کوشش کرنےلگی ۔ لیکن وہ کسی شیر کےچنگل میں پھنسی ہرنی سی اپنےآپ کو محسوس کررہی تھی ۔ کھوٹا بھیانک انداز میں ہنس رہا تھا اور وہ اس کےہاتھوں سےاپنی کلائی چھڑانےکی کوشش کرتی رہی ۔ اس منظر کو دیکھ کر ایک دو راستہ چلنےوالےرک بھی گئے۔ لیکن کھوٹا پر نظر پڑتےہی وہ تیزی سےآگےبڑھ گئے۔ شیطانی ہنسی ہنستا ہوا کھوٹا اس کی بےچینی سےمحظوظ ہورہا تھا ۔ پھر ہنستےہوئےاس نےدھیرےسےاس کا ہاتھ چھوڑ دیا ۔ وہ روتی ہوئی آگےبڑھ گئی ۔ کھوٹاکا شیطانی قہقہہ اس کا تعاقب کرتا رہا ۔ وہ روتی ہوئی اسٹیشن آئی اور لوکل میں بیٹھ کر سسکتی رہی ۔ اسےروتا دیکھ کر آس پاس کےمسافر اسےحیرت سےدیکھ رہےتھے۔
آفس پہونچنےتک رو رو کر اس کی آنکھیں سوج گئی تھیں ۔ اس میں آئی تبدیلی آفس والوں سےچھپی نہ رہ سکی ۔ اسےآفس کی سہیلیوں نےگھیر لیا ۔
” کیا بات ہےمایا ‘ یہ تمہارا چہرہ کیوں سوجا ہوا ہےاور آنکھیں کیوں لال ہیں ؟ “ اس نےکوئی جواب نہیں دیا اور ان سےلپٹ کر دھاڑیں مار مار کر رونےلگی ۔ وہ سب بھی گھبرا گئیں اور اسےتسلی دیتےہوئےچپ کرانےکی کوشش کرنےلگیں ۔ بڑی مشکل سےاس کےآنسو رکےاور اس نےپوری کہانی انہیں سنا دی ۔ اس سےقبل بھی وہ کئی بار کھوٹا کی ان حرکتوں کی بارےمیں انہیں بتا چکی تھی لیکن انہوں نےکوئی دھیان نہیں دیا تھا ۔
” نوکری پیشہ عورتوں کےساتھ تو یہ سب ہوتا ہی رہتا ہے۔ میرا خود ایک عاشق ہےجو اندھیری سےچرنی روڈ تک میرا پیچھا کرتا ہے۔ “
” میرےبھی ایک عاشق صاحب ہیں ۔ سویرےشام میرےمحلےکےنکڑ پر میرا انتظار کرتےرہتےہیں ۔ “
” اور میرےعاشق صاحب تو آفس کےگرد منڈلاتےرہتےہیں ۔ آو¿ بتاتی ہوں سڑک پر کھڑےآفس کی طرف ٹکٹکی لگائےدیکھ رہےہوں گے۔ “
” اگر کھوٹا تم پر عاشق ہوگیا ہےتو یہ کوئی تشویش کی بات نہیں ہے۔ تم چیزہی ایسی ہو کہ تمہارےتو سو دو سو عاشق ہوسکتےہیں ۔ “ ان کی باتیں سن کر وہ جھنجھلا جاتی ۔
” تم لوگوں کو مذاق سوجھا ہےاور میری جان پر بنی ہے۔ کھوٹا ایک غنڈہ ہے‘ بدمعاش ہے۔ وہ ایسا سب کچھ کرسکتا ہےجس کا تصور بھی تمہارےعاشق نہیں کرسکتے۔ لیکن اس دن کی کھوٹا کی یہ حرکت سن کر سب سناٹےمیں آگئیں تھیں ۔
” کیا تم نےاس بارےمیں اپنےشوہر کو بتایا ؟ “
” نہیں ! آج تک کچھ نہیں بتایا ۔ سوچتی تھی کوئی ہنگامہ نہ کھڑا ہوجائے۔ “
” تو اب پہلی فرصت میں اسےسب کچھ بتا دو ۔ “
اس شام وہ معمول کےراستےسےنہیں لمبےراستےسےگھر گئی ۔ اور ونود کو سب کچھ بتادیا کہ کھوٹا اتنےدنوں سےاس کےساتھ کیا کررہا تھا اور آج اس نےکیا حرکت کی ۔ اس کی باتیں سن کر ونود کا چہرہ تن گیا ۔
” ٹھیک ہے! فی الحال تو تم ایک دو دن آفس جانا ہی نہیں ۔ اس کےبعد سوچیں گےکہ کیا کرنا ہے۔ اس کےبعد وہ تین دن آفس نہیں گئی ۔ ایک دن وہ بالکنی میں کھڑی تھی ۔ اچانک اس کی نیچےنظر گئی اور اس کا دل دھک سےرہ گیا ۔ کھوٹا نیچےکھڑا اس کی بالکنی کو گھور رہا تھا ۔ اس سےنظر ملتےہی وہ شیطانی انداز میں مسکرانےلگا ۔ وہ تیزی سےاندر آگئی ۔
رات ونود گھر آیا تو اس نےآج کا واقعہ بتایا ۔ اس واقعہ کو سن کر اس نےاپنےہونٹ بھینچ لئے۔ دوسرےدن آفس جانا بہت ضروری تھا ۔ اتنےدنوں تک وہ اطلاع دئےبنا آفس سےغائب نہیں رہ سکتی تھی ۔
” آج میں تم کو اسٹیشن تک چھوڑنےآو¿ں گا ۔ “ ونود نےکہا تو اس کی ہمت بندھی۔ ونود اسےاسٹیشن تک چھوڑنےآیا ۔ جب وہ گلی سےگذرےتو پان اسٹال کےپاس کھوٹا موجود تھا ۔
” کیوں جانِ من ! آج باڈی گارڈ ساتھ لائی ہو ۔ تمہیں اچھی طرح معلوم ہےکہ اس طرح کےسو باڈی گارڈ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ “ پیچھےسےآواز آئی تو اس آواز کو سن کر جوش میں ونود مڑا لیکن اس نےاسےتھام لیا ۔
” نہیں ونود ! یہ غنڈوں سےالجھنےکا وقت نہیں ہے۔ “ اور وہ اسےتقریباً کھینچتی ہوئی اسٹیشن کی طرف بڑھ گئی ۔ اس شام واپسی کےلئےاس نےلمبا راستہ اپنایا ۔ لیکن اس کالونی کےگیٹ کےپاس پہونچتےہی اس کا دل دھک

سےرہ گیا ۔
کھوٹا گیٹ پر اس کا منتظر تھا ۔
” مجھےاندازہ تھا کہ تم واپس اس راستےسےنہیں آو¿گی ۔ اس لئےتمہاری کالونی کےگیٹ پر تمہیں سلام کرنےآیا ہوں ۔ کاش تم مجھ سےفرار حاصل کرسکو ۔ “ یہ کہتےہوئےوہ اسےسلام کرتا ہوا آگےبڑھ گیا ۔ رات ونود کو اس نےساری کہانی سنائی تو ونود بولا ۔ ” کل اگر کھوٹا نےتمہیں چھیڑا تو ہم اس کےخلاف پولس میں شکایت کریں گے۔ “
دوسرےدن ونود اسےچھوڑنےکےلئےآیا تو کھوٹا سےپھر آمنا سامنا ہوگیا ۔ کھوٹا کی گندی باتیں ونود برداشت نہ کرسکا اور اس سےالجھ گیا ۔ ونود نےایک مکہ کھوٹا کو مارا ۔ جواب میں کھوٹا نےونود کےمنہ پر ایسا وار کیا کہ اس کےمنہ سےخون بہنےلگا ۔
” بابو ! کھوٹا سےاچھےاچھےتیس مار خاں نہیں جیت سکےتو تمہاری بساط ہی کیا ہی؟ “زخمی ونود نےآفس جانےکےبجائےپولس اسٹیشن جاکر کھوٹا کےخلاف شکایت کرنا ضروری سمجھا ۔ تھانہ انچارج نےساری باتیں سن کر کہا ۔ ” ٹھیک ہےہم آپ کی شکایت لکھ لیتےہیں ۔ لیکن ہم کھوٹا کےخلاف نہ تو کوئی سخت کاروائی کرپائیں گےنہ کوئی مضبوط کیس بنا پائیں گے۔ کیونکہ کچھ گھنٹوں میں کھوٹا چھوٹ جائےگا اور ممکن ہےچھوٹنےکےبعد کھوٹا تم سےاس بات کا انتقام بھی لے۔ ویسےآپ ڈریئےنہیں ہم کھوٹا کو اس کی سزا ضرور دیں گے۔ “
پولس اسٹیشن سےبھی انہیں مایوسی ہی ملی ۔ اس دن دونوں آفس نہیں گئے۔ تناو¿ میں بنا ایک دوسرےسےبات کئےگھر میں ہی ٹہلتےرہے۔ شام کو اس نےپولس اسٹیشن فون لگا کر اپنی شکایت پر کی جانےوالی کاروائی کےبارےمیں پوچھا ۔
” مسٹر ونود ! “ تھانہ انچارج نےکہا ۔ آپ کی شکایت پر ہم نےکھوٹا کو پولس اسٹیشن بلا کر تاکید کی ہے۔ اگر اس نےدوبارہ آپ کی بیوی کو چھیڑا یا آپ سےالجھنےکی کوشش کی تو اسےاندر ڈال دیں گے۔ دوسرےدن دونوں ساتھ آفس کےلئےروانہ ہوئے۔ متعین جگہ پر پھر کھوٹا سےسامنا ہوگیا ۔
” واہ بابو واہ ! تیری تو بہت پہونچ ہے۔ کھوٹا سےبھی زیادہ ؟ تیری ایک شکایت پر پولس نےکھوٹا کو بلا کر تاکید کی اور تاکید ہی کی ہےناں ؟ اب کی بار کھوٹا ایسا کچھ کرےگا کہ پولس کو تمہاری شکایت پر کھوٹا کےخلاف کاروائی کرنی ہی پڑےگی ۔ “
” کھوٹا ! ہم شریف لوگ ہیں ہماری عزت ہمیں اپنی جان سےبھی زیادہ پیاری ہےاور اس عزت کی حفاظت کےلئےہم اپنی جان بھی دےسکتےہیں اور کسی کی جان لےبھی سکتےہیں ۔ اس لئےبہتری اسی میں ہےکہ ہم شریف لوگوں کو پریشان مت کرو ۔ تمہارےلئےاور بھی ہزاروں عورتیں دنیا میں ہیں ۔ تم قیمت ادا کرکےمن چاہی عورت کو حاصل کرسکتےہو ۔ پھر کیوں میری بیوی کےپیچھےپڑےہو ؟ “
” مشکل یہی ہےبابو ! کھوٹا کا دل جس پر آیا ہےوہ اسےپیسوں کےبل پر نہیں مل سکتی ۔ اس کی طاقت کےبل پر ہی مل سکتی ہے۔ “
” کمینے! میری بیوی کی طرف آنکھ بھی اٹھائی تو میں تیری جان لےلوں گا ۔ “ یہ کہتےہوئےونود کھوٹا پر ٹوٹ پڑا اور بےتحاشہ اس پر گھونسےبرسانےلگا ۔ ہکا بکا کھوٹا ونود کےوار سےخود کو بچانےکی کوشش کرنےلگا ۔ اچانک راستہ چلتےکچھ راہ گیروں نےونود کو پکڑ لیا ‘ کچھ نےکھوٹا کو ۔ اور وہ کسی طرح ونود کو آفس جانےکےبجائےگھر لےجانےمیں کامیاب ہوگئی ۔ کھوٹا سےونود کےٹکراو¿ نےاسےدہشت زدہ کردیا تھا ۔ اسےیقین تھا کہ کھوٹا اس بےعزتی کا بدلہ ضرور لےگا ۔ اور کس طرح لےگا اس تصور سےہی وہ کانپ جاتی تھی ۔ وہ ونود کو بہلاتی رہی ۔
” کھوٹا کو تم نےایسا سبق سکھایا ہےکہ آج کےبعد نہ وہ تم سےالجھےگا نہ میری طرف آنکھ اٹھانےکی جرا¿ت کرےگا ۔ تم نےجو قدم اٹھایا وہ بہت صحیح تھا ۔ “ بظاہر وہ ونود کو دلاسا دےرہی تھی لیکن اندر ہی اندر کانپ رہی تھی کہ کھوٹا ضرور اس بات کا بدلہ لےگا ۔ اگر اس نےونود کو کچھ کیا تو ؟
نہیں ! نہیں ! ونود کو کچھ نہیں ہونا چاہئیےونود میری زندگی ہے۔ اگر اس کےجسم پر ایک خراش بھی آئی تو میں زندہ نہیں رہوں گی ۔ اسےایسا محسوس ہورہا تھا اس کی وجہ سےیہ جنگ چھیڑی ہے۔ اس جنگ کا خاتمہ دونوں فریقوں کی تباہی ہے۔ اس کےعلاوہ کچھ اور نکل بھی نہیں سکتا ۔ بہتری اسی میں ہےکہ دونوں فریقوں کےدرمیان صلح کرادی جائے۔ تاکہ جنگ کی نوبت ہی نہ آئے۔ لیکن یہ صلح کس طرح ممکن تھی ؟ کھوٹا انتقام کی آگ میں جھلس رہا ہوگا اور جب تک انتقام کی یہ آگ نہیں بجھےگی اسےچین نہیں آئےگا ۔ اسےکھوٹا ایک اژدھا محسوس ہورہا تھا ۔ جو اس کےسامنےکھڑا اسےنگلنےکےلئےاپنی زبان بار بار باہر نکالتا اور پھنکاررہا تھا ۔ اس اژدھےسےاسےاپنی حفاظت کرنی تھی ۔ دوسرےدن وہ آفس جانےلگی تو پان اسٹال پر کھوٹا کا سامنا ہوگیا ۔ وہ قہر آلود نظروں سےاسےگھور رہا تھا ۔ اس نےمسکرا کر اسےدیکھا اور آگےبڑھ گئی ۔ اسےمسکراتا دیکھ کھوٹا حیرت سےاسےآنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتا رہ گیا ۔
ایک دن پھر وہ آفس جانےلگی تومسکراتا ہوا کھوٹا اس کا راستہ روک کر کھڑا ہوگیا ۔ اس کی آنکھوں میں ایک چمک تھی ۔
” میرا راستہ چھوڑ دو ۔ “ وہ قہر آلود نظروں سےاسےگھورتی ہوئیغصہ سے بولی ۔
” جانم اب تو ہمارےتمہارےراستےایک ہی ہیں ۔ “ کہتےہوئےکھوٹا نےاس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اس نےایک جھٹکےسےاپنا ہاتھ چھڑالیا اور قریب کھڑےناریل پانی فروخت کرنےوالےکی گاڑی سےناریل چھیلنےکی درانتی اٹھاکر کھوٹا کی طرف شیرنی کی طرح لپکی ۔ کھوٹا کےچہرےپر ہوائیاں اڑنےلگیں ۔ اچانک وہ سر پر پیر رکھ کر بھاگا ۔ وہ اس کےپیچھےدرانتی لئےدوڑ رہی تھی ۔
پھولتی ہوئی سانسوں کےساتھ کھوٹا اپنی رفتار بڑھاتا جارہا تھا ۔ جب کھوٹا اس کی پہونچ سےکافی دور نکل گیا تو وہ کھڑی ہوکر اپنی پھولی ہوئی سانسوں پر قابو پانےکی کوشش کرنےلگی ۔ اور پھر درانتی کو ایک طرف پھینک کر آفس چل دی ۔

پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتی
بھیونڈی ٢٠٣ ١٢٤
ضلع تھانہ ٠ مہاراشٹر)

پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتتی
بھیونڈی ٢٠٣ ١٢٤
ضلع تھانہ ( مہاراشٹر)

M.Mubin

Classic Plaza, Teen Batti

BHIWANDI_ 421302

Dist.Thane Maharashtra India)

Mob:- 09372436628) )

mmubin123@yahoo.com