غزل - ۲۰

پھر غلط کیا ہے کہ ہم سا کوئی پیدا نہ ہوا

الٹے پھر آئے درِ کعبہ اگر وا نہ ہوا

روبرو کوئی بتِ آئينہ سیما نہ ہوا

تیرا بیمار، برا کیا ہے، گر اچھا نہ ہوا

خاک کا رزق ہے وہ قطرہ کہ دریا نہ ہوا

کام میں میرے ہے جو فتنہ کہ برپا نہ ہوا

حمزہ کا قِصّہ ہوا، عشق کا چرچا نہ ہوا

کھیل لڑکوں کا ہوا، دیدہٴ بینا نہ ہوا

درخورِ قہر و غضب جب کوئی ہم سا نہ ہوا

بندگی میں بھی وہ آزادہ و خودبیں ہیں، کہ ہم

سب کو مقبول ہے دعویٰ تری یکتائی کا

 کم نہیں نازشِ ہمنامیٴ چشمِ خوباں

سینے کا داغ ہے وہ نالہ کہ لب تک نہ گیا

نام کا میرے ہے جو دکھ کہ کسی کو نہ ملا

ہر بُنِ مو سے دمِ ذکر نہ ٹپکے خونناب

قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کُل

تھی خبر گرم کہ غالب کے اُڑیں گے پرزے

 دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا

* * * * *

اسد ہم وہ جنوں جولاں گدائے بے سر و پا ہیں

 کہ ہے سر پنجہٴ مژگانِ آہو پشت خار اپنا

* * * * *

 

Comments

Your blog caught my eye. Thanks for sharing this information.

Wenatchee homes for sale "{}" Massage san diego "{}" dentist shreveport "{}" nigerian wedding photographers "{}" golfcart tires