غزل - ۳۷

 کہتے ہیں ہم تجھ کو منہ دکھلائیں کیا

ہو رہے گا کچھ نہ کچھ، گھبرائیں کیا

جب نہ ہو کچھ بھی تو دھوکا  کھائیں کیا

یا رب اپنے خط کو ہم پہنچائیں کیا؟

آستانِ یار سے اٹھ جائیں کیا؟

مر گئے پر، دیکھیے دکھلائیں کیا

جور سے باز آئے، پر باز آئیں کیا

رات دن گردش میں ہیں سات آسماں

لاگ ہو تو اس کو ہم سمجھیں لگاؤ

ہو لئے کیوں نامہ بر کے ساتھ ساتھ

موج خوں سر سے گزر ہی کیوں نہ جائے

عمر بھر دیکھا کئے مرنے کی راہ

پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے

کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا

* * * *

لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی

چمن زنگار ہے آئینہٴ بادِ بہاری کا

حریفِ جوششِ دریا نہیں خودداریٴ ساحل

جہاں ساقی ہو تو، باطل ہے دعویٰ ہو شیاری کا

* * * *

Comments

Going through this Ghazal of Ghalib first time...