غزل - ۳۸

درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہوجانا

تھا لکھا بات کے بنتے ہی جدا ہوجانا

مٹ گیا  گھسنے میں  ا س عقدے   کا وا  ہوجانا

اِس قدر دشمنِ اربابِ وفا ہوجانا

باور آیا ہمیں پانی ہوا ہوجانا

ہوگیا گوشت سے ناخن کا جدا ہوجانا

روتے روتے غمِ فرقت میں فنا ہوجانا

کیوں ہے گردِ رہِ جولانِ صبا ہوجانا

دیکھ برسات میں سبز آئينے کا ہوجانا

عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہوجانا

تجھ سے قسمت میں  مری، صورتِ فقلِ ابجد

دل ہوا کشمکشِ چارہٴ زحمت میں تمام

اب جفا سے بھی ہیں محروم ہم الله الله

ٓضعف سے گریہ مُبّدل بہ دمِ سرد ہوا

دل سے مٹنا تری انگشتِ حنائی کا خیال

ہے مجھے ابرِ بہاری کا برس کر کُھلنا

گر نہیں نکہتِ گل  کو  ترے کوچے کی ہوس

تاکہ تجھ پر کھلے اعجازِ ہوائے صقیل

بخشے  ہے جلو ہٴ گل، ذوقِ تماشا غالب

چشم کو چا ہیے ہر رنگ میں وا ہوجانا

* * * *