19 Oct 2005

My Urdu Short Tooti Chhat Ka Makan By M.Mubin

Submitted by mmubin

افسانہ

ٹوٹی چھت کا مکان

از:۔ایم مبین

وہ گھر میں اکیلا اور بیزار بیٹھا تھا۔
کبھی کبھی تنہا رہنا کتنا اذیت ناک ہوتا ہی۔ اکیلےبیٹھےبلاوجہ گھر کی ایک ایک چیز کو گھورتےرہنا۔
سوچنےکےلیےکوئی خیال یا موضوع بھی تو نہیں ہےکہ اسی کےبارےمیں غور کیا جائی۔
عجیب و غریب خیالات و موضوع ذہن میں آتےہیں۔ جن پر غور کرکےکچھ بھی حاصل نہیں ہوسکتا ہی۔
اس نےاپنا سر جھٹک کر سر اُٹھانےوالےان لایعنی خیالوں کو ذہن سےنکالا اور چھت کو گھورنےلگا۔
سفید دودھ کی سی چھت، بےداغ چھت، جس کےچاروں کونوں پر چار دودھیا بلب لگےتھےاور درمیان میں ایک فانوس لٹک رہا تھا۔ گذشتہ دنوں اس نےوہ جھومر مدراس سےلایا تھا اس کی قیمت پورےتیس ہزار روپیہ تھی۔
ایک فانوس تیس ہزار روپیہ قیمت، سوچ کر وہ خود ہی ہنس پڑا ، گھر میں ایسی کئی چیزیں تھیں جن کی قیمت لاکھوں تک ہوتی اور اس کےعلاوہ پورا مکان؟
ایک کروڑ کا نہیں تو چالیس پچاس لاکھ کا ضرور ہوگا۔اور اس کےسامنےچالیس پچاس لاکھ روپیہ کےمکان کی چھت تھی جسےوہ اس وقت گھوررہا تھا۔
دس بیس سالوں قبل اس نےکبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ اس کےسر پر چالیس پچاس لاکھ روپیوں کی چھت ہوگی۔ آج اس کی یہ حالت ہی۔
لیکن کبھی اس کےایسےحالات تھےکہ اسےٹوٹی چھت کےمکان میں رہنا پڑتا تھا۔
کیا وہ اس کو بھول سکتا ہیَ نہیں۔۔ کبھی نہیں۔۔۔۔
انسان کو جس طرح اپنےاچھےدن ہمیشہ یاد رہتےہیں اسی طرح وہ اپنےبرےدن بھی کبھی نہیں بھولتا۔اور اس نےتو اس ٹوٹی ہوئی چھت کےنیچےپورےدوسال نکالےتھی۔تب کہیں جاکر وہ ٹوٹی چھت بن سکی تھی۔اس ٹوٹی چھت کےنیچی، اس کےخاندان نےکتنی تکلیفیں سہی تھیں۔ ان تکلیفوں اور اذیتوں کو وہ کبھی نہیں بھول سکتا۔
مکان، مکان کی چھت کس لیےہوتی ہی؟
سردی، گرمی، بارش، دھوپ، ہوا سےانسان کی حفاظت کرنےکےلیےمکان میں رہنےکی یہی تو وجہ ہوتی ہی۔
لیکن جس مکان کی چھت ہی ٹوٹی ہوئی ہو اس میں رہنا کیا معنی؟بارش کےدنوں میں پانی گھر کو جل تھل کردیتا ہو اور اس طرح بہتا ہو جیسےسڑک پر پانی بہہ رہا ہو۔
دھوپ سات بجےسویرےسےہی گھر میں گھس کر جسم میں سوئیاں چبھونےلگتی ہو، دن ہو یا رات سردی جسم میں کپکپی پیدا کرتی ہو۔ تو اس چھت کےکیا معنی؟ایسےمیں کھلی سڑک پر آسمان کی چھت کےنیچےرہنا اچھا لگتا ہے، اس ٹوٹی چھت کےمکان میں رہنےکےمقابلی۔
چھت ٹوٹ گئی تھی، چھت کےٹوٹنےپر ان کا کوئی بس نہیں تھا۔ مکان کافی پرانا ہوگیا تھا۔ داداجی کہتےتھےمیرےدادا نےیہ مکان بنایا تھا۔
گھر کی چھت اور جن لکڑیوں پر وہ چھت ٹکی تھی سینکڑوں، گرمیاں، سردیاں، بارش دیکھ چکی تھیں۔آخر اس کی قوتِ برداشت جواب دےگئی۔ایک دن جب گھر میں کوئی نہیں تھا۔ سب کسی نہ کسی کام سےگھر کےباہر گئےتھی، چھت گرگئی۔کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا۔ لیکن ان کا سارا سنسار منوں مٹی کےنیچےدب گیا۔
بڑی محنت اور مشکل سےماں، باپ سب بھائی بہنوں نےمل کر اس سنسار کی ایک ایک چیز کو مٹی سےباہر نکالا تھا۔مٹی نکال کر آنگن میں ڈھیر لگایا گیا۔گلی سڑی لکڑیوں کا ایک طرف ڈھیر لگایا گیا اور گھر کی صاف صفائی کرکےمکان کو رہنےکےقابل بنایا گیا۔
اس کےبعد دوسالوں تک اس مکان کی چھت نہیں بن سکی۔چھت کی مٹی برسات میں بہتی رہی۔اور گرمی سردی سےدب کرزمین پر مسطح ہوگئی۔
ساری لکڑیاں ایندھن کےطور پر استعمال ہوگئی، اور گھر میں اس کےخاندان کےافراد کےساتھ گرمی، سردی، بارش کا بسیرا ہوگیا۔
پتاجی کی اتنی آمدنی نہیں تھی کہ چھت بنائی جاسکی۔ جو کچھ کماتےتھےاس میں مشکل سےان کا گھر چلتا تھا، اور ان کی تعلیم کےاخراجات پورےہوپاتےتھی۔
یہ جان کر ہی گھر کےہرفرد نےاس ٹوٹی چھت کےساتھ سمجھوتہ کر لیا تھا۔ اور چاردیواری میں رہ کر بھی بےگھر ہونےکی ہر اذیت کو چپ چاپ برداشت کررہےتھی۔اس کےبعد وہ ٹوٹی چھت اس وقت بن پائی جب پتاجی نےاپنی زمین کا ایک ٹکڑابیچ ڈالا۔
آج جب وہ اس بارےمیں سوچتا ہےتو اسےایسا لگتا ہےشاید بھگوان نےاس ٹوٹی ہوئی چھت کےنیچےصبر سےرہنے، کسی طرح کی کوئی شکایت و گلہ نہ کرنےکا صلہ اسےاس چھت کی شکل میں دیا۔اگر وہ شہر کےکسی بھی فرد کو بتاتےکہ وہ شہر کےکس حصےمیں اور کس عمارت میں رہتا ہےتو وہ اس کےنصیب سےحسد کرنےلگی۔
اس علاقےمیں بنی عمارتوں میں رہنےکا لوگ صرف خواب دیکھتےرہتےتھی۔لیکن وہ وہاں رہ رہا تھا۔ایک ایسی چھت کےنیچےجس کا نام سُن کر ہی ہر شخص آسانی سےاس کےرتبہ اور حیثیت کا پتہ لگا لیتا ہی۔
وہ چھت جو اسےاور اس گھر کےافراد کو،گرمی،سردی،بارش سےبچاتی ہی۔بچاتی کیا ہےیہ موسم اس مکان میں داخل ہونےسےرہا۔اس کےگھر کےاپنےموسم جن پر اس کا، اس کےگھر والوں کا اختیار ہےیہ ان کےبس میں ہیں موسموں کا گھر پر کوئی بس نہیں ہی۔
باہر شدید گرمی ہےاندر ائر کنڈیشن چل رہا ہےاور کشمیر سا موسم چھایا ہوا ہی۔
باہر سردی ہی۔
لیکن پورا مکان اپنےاندر میٹھی میٹھی تپش لیےہوئےہی۔ ہوائیں اپنےبس میں ہیں۔
ہر چیز پر اپنا اختیار ہی۔
دروازےپرآٹومیٹک تالہ ہی۔
گھر کےافراد کےلمس کےبنا نہیں کھل سکتا۔
فرش پہ ایرانی قالین بچھا ہی۔ ڈرائینگ روم ایک منی تھیٹر کی طرح ہےجہاں ڈسکوری چینل ٢١ فٹ کےپردےپر دکھائی دیتا ہی۔
پوری بلڈنگ میں باحیثیت لوگ رہتےہیں بلکہ کچھ تو اس سےبڑھ کر ہیں۔ گپتاجی کا ایکسپورٹ کا بزنس ہی۔
متل جی ایک چھوٹےسےانڈسٹریل گروپ کےمالک ہیں۔
شاہ شہر کا ایک نامی گرامی فینانسر ہے۔
نکم ایک بہت بڑا سرکاری آفیسر ہے۔
ہر کوئی ایک دوسرےسےبڑھ کر ہے۔
یہ الگ بات ہےکہ وہ ایک دوسرےکو کتنا جانتےہیں یا ایک دوسرےکےلئےکتنےاجنبی ہیں ‘ یہ تو وہ لوگ بھی نہیں بتا سکتے۔ جب ان کےگھر موقع بےموقع کوئی پارٹی ہو تو وہ ایک دوسرےکےگھر جاکر اس بات سےواقف ہوتےہیں کہ ان کےگھر میں کیا کیا نئی چیزیں آئی ہیں ۔ جو اب تک ان کےگھروں میں نہیں آپائی ہیں اور پھر وہ چیز سب سےپہلےلانےکےلئےرسہ کشی شروع ہوجاتی اور کچھ دنوں کےبعد ہر گھر کےلئےوہ چیز عام سی شہ بن جاتی ۔
سیڑھیاں چڑھتےہوئے‘ سیڑھیاں اترتےہوئےیا لفٹ میں کوئی مل جاتا ہےتو وہ اخلاقاً اس سےبات کرلیتے۔
ان کی خوشیاں تو اجتماعی ہوتی ہیں ۔ ایک دوسرےکی خوشیوں میں سبھی شامل ہوتےہیں ‘ لیکن ا ن کےغم میں ان کےاپنےہوتےہیں ۔ غموں میں دکھوں میں کوئی بھی کسی کو تسلی دینےبھی نہیں جاتا اپنےدکھ انہیں خود ہی جھیلنےہوتےہیں ۔ وہ دس دنوں تک اسپتال میں رہا تو بھی کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوسکی ۔ نہ تو اس کےگھر والوں نےکسی کو بتایا کہ شاہ کہاں ہےاور نہ اتنےدنوں تک شاہ کی کمی محسوس ہوئی ۔ اگر معلوم ہو بھی جاتا تو وہ کیا کرلیتے؟
اخلاقاً اسپتال جاکر شاہ کی خیریت پوچھ آتےاور آنےجانےمیں جو قیمتی وقت برباد ہوتا اس کےلئےبھی شاہ کو کوستے۔
اس بات کو ہر کوئی جانتا اور سمجھتا تھا کہ ہر کسی کا وقت قیمتی ہےاس لئےایک دوسرےکو اپنی ایسی باتوں کا پتہ لگنےہی نہیں دیتےتھے‘ نہ خبر کرتےتھےجس سےدوسروں کا قیمتی وقت برباد ہو ۔
متل پر حملہ کرکےغنڈوں نےاس کا سوٹ کیس چھین لیا جس میں تقریباً دس لاکھ روپےتھے۔ یہ خبر بھی انہیں دو دن بعد معلوم ہوئی جب انہوں نےاخبار میں اس کےمتعلق پڑھا ۔ دو دنوں تک متل نےبھی کی کو یہ بات بتانےکی ضرورت محسوس نہیں کی ۔
گپتاجی کا اکسیڈینٹ ہوگیا ‘ انہیں کافی چوٹیں آئیں ۔ دس دنوں تک وہ اسپتال میں رہےاور انہیں پانچ دنوں بعد گپتا کےساتھ ہونےوالےحادثےکا پتہ چلا ۔
وہ دس منزلہ اونچی عمارت تھی ۔ ہر فلور پر ایک خاندان اور کہیں کہیں دو تین خاندان آباد تھے۔ مگر برسوں بعد پتہ چلتا تھا کہ پانچویں فلور پر کوئی نئی فیملی رہنےکےلئےآئی ہے۔ پانچویں فلور کا سنہا کب فلیٹ چھوڑ گیا معلوم ہی نہیں ہوسکا ۔ ہر کسی کی زندگی ‘ گھر ، خاندان اور زیادہ سےزیادہ ان کےفلور تک محدود تھی ۔
ا س کےبعد اپنا بزنس دنیا بس اتنی ہی تھی ۔ بس انہی دو نقطوں تک محدود تھی ۔ باہر کی دنیا سےانہیں کچھ لینا دینا نہیں تھا ۔
اچانک وہ حادثہ ہوگیا ۔
شاہ کےگھر ڈاکہ پڑا ۔
لٹیرےشاہ کا بہت کچھ لوٹ کر لےگئے۔ اس کی بیوی اور بیٹی کا قتل کردیا ۔ شاہ کو مار مار کر ادھ مرا کردیا۔ جس کی وجہ سےوہ کوما میں چلا گیا ۔
دو نوکروں کو بھی مار ڈالا ‘ واچ مین کو زخمی کردیا اور لفٹ مین کےسر پر ایسی چوٹ لگی کہ وہ پاگل ہوگیا۔
اتنا سب ہوگیا لیکن پھر بھی کسی کو کچھ پتہ نہیں چل سکا ۔
سویرےجب واچ مین کو ہوش آیا تو اس نےشور مچایا کہ رات کچھ لٹیرےآئےتھےاور انہوں نےاسےمار کر زخمی کردیا ۔
لفٹ مین لفٹ میں بےہوش ملا اور شاہ کا گھر کھلا تھا ۔ اندر گئےتو زخمی شاہ اور اس کےخاندان والوں کی لاشیں ان کا انتظار کر رہی تھیں ۔
تفتیش کےلئےپولس کو بلایا گیا تو پولس کی ایک پوری بٹالین آئی اور اس نےپوری بلڈنگ کو اپنےگھیری

میں لےلیا ۔پہلےبلڈنگ کےہر فرد کو بلا کر پوچھ تاچھ کی جانےلگی ۔
جب یہ واقعہ پیش آیا تو آپ کیا کررہےتھے؟ اس واقعےکا پتہ آپ کو کب چلا ؟ آپ کےپڑوس میں آپ کی بلڈنگ میں اتنی بڑی واردات ہوگئی اور آپ کو پتہ تک نہ چل سکا ؟ آپ کےشاہ سےکیسےتعلقات تھے؟ کیا کسی نےشاہ کےگھر کی مخبری کی ہے؟ بنا مخبری کےلٹیرےگھر میں گھس کر چوری کرنےکی جرا¿ت کر ہی نہیں سکتے۔
گھر کےبڑےلوگوں سےپوچھ تاچھ کرکےبھی پولس کی تسلی نہیں ہوئی تو ہر گھر میں گھس کر گھر کےہر چھوٹےبڑے، بوڑھےبچے، عورت مرد سےپوچھ تاچھ کرنےلگی اور گھر کی ایک ایک چیز کو الٹ پلٹ کرکےدیکھنےلگی ۔
اس کےبعد بلڈنگ کےہر فرد میں سےایک دو کو پولس چوکی پر بلا کر اسےایک دو گھنٹےپولس چوکی میں بٹھایا جاتا اور اس سےعجیب و غریب سوالات کئےجاتے۔ کبھی کبھی بھیانک شکل و صورت والےچور بدمعاشوں کےسامنےلےجا کر کھڑا کردیا جاتا اور پوچھا جاتا ۔
” کیا انہیں پہچانتےہو ‘ انہیں کبھی بلڈنگ کےآس پاس دیکھا ہے؟“ کبھی کبھی ان بدمعاشوں کو لےکر پولس خود گھر پہنچ جاتی اور گھر کی عورتوں ، بوڑھوں اور بچوں کو انہیں دکھا کر ان سےالٹےسیدھےسوالات کرتی ۔ جب رات وہ آفس سےواپس آتےتو خوفزدہ عورتیں اور بچےانہیں پولس کی آمد کی اطلاع دیتے۔ایک دن پولیس کا ایک دوسرا دستہ دندناتا ہوا بلڈنگ میں گھس آیا اور ہر گھر کی تلاشی لینےلگا۔
”ہمیں شک ہےکہ اس واردات میں اسی عمارت میں رہنےوالےکسی فرد کا ہاتھ ہےاور چرایاگیا سامان اسی عمارت میں ہےاس لیےہم پوری عمارت کی تلاشی کا وارنٹ لےکر آئےہیں۔“
پولیس کےپاس سرچ وارنٹ تھا۔
ہر کوئی بےبس تھا۔ پولیس سرچ کےنام پر ان کا قیمتی سامان توڑپھوڑ رہی تھی اور ہر چیز کےبارےمیں طرح طرح کےسوالات کر رہی تھی۔ تلاشی کےبعد بھی پولیس مطمئن نہیں ہوئی۔
ہر منزل کےایک ایک دو دو آدمی کو بیان لینےکےنام پر پولیس اسٹیشن لےگئی اور بلاوجہ چار چار پانچ پانچ گھنٹےانہیں تھانےمیں بٹھائےرکھا۔
کیا کیا سامان چوری ہوا ہےاس بارےمیں تو پولیش بھی ابھی تک طےنہیں کرپائی تھی۔
اس بارےمیں معلومات دینےوالا شاہ کو ما میں تھا۔
اس کی بیوی ، بیٹی اور نوکر مرچکےتھی۔ دوبیٹےجو الگ رہ رہےتھےاس بارےمیں یقین سےکچھ بتا نہیں پاتےتھی۔
عمارت کےباہر پولیس کا سخت پہرہ بٹھا دیا گیا۔
چارسپاہی ہمیشہ ڈیوٹی پر رہتی۔
رات کو وہ کبھی بھی بیل بجا کر دہشت زدہ کر دیتی۔
دروازہ کھولنےپر صرف اتنا پوچھتی۔ ”سب ٹھیک ہےنا؟“
”ہاں ٹھیک ہی۔“ جواب سن کر وہ آگےبڑھ جاتےمگر رات کی میٹھی نیند خراب کردیتی۔
کوئی کچھ نہیں بول پاتا تھا۔ چپ چاپ سب برداشت کرلیتی۔
پولیس اپنا فرض جو ادا کر رہی تھی۔
ہر کوئی اس نئی مصیبت سےپریشان تھا ۔
ہر کوئی عزت دار، رسوخ والا آدمی تھا۔
یہ طےکیا گیا کہ ایک وفد پولیس کمشنر سےبات کرےکہ وہ وہاں سےپولیس کا پہرہ ہٹالی، اور پولیس کو حکم دیں کہ وہ انھیں اس طرح وقت بےوقت تنگ نہ کریں، یعنی نہ انھیں پولیس اسٹیشن لائیں نہ ان کےگھر آئیں۔
سبھی اس کےلئےتیار ہوگئی۔
کیونکہ ان باتوں سےہر کوئی پریشان تھا۔
کمشنر سےملنا اتنا آسان نہیں تھا ، لیکن متل نےکسی طرح انتظام کر ہی دیا انھوں نےاپنےمسائل کمشنر کےسامنےرکھی۔
وہ چپ چاپ ہر کسی کی بات سُنتا رہا۔
جب اس کی باری آئی تو ان پر بھڑک اُٹھا۔
”آپ شہر کےعزت دار، شریف اور دولت مند لوگ مجھ سےکہہ رہےہیں کہ میں پولیس کےکاموں میں دخل دوں۔ آپ معاملےکی سنگینی کو سمجھتےنہیں پورےچار قتل ہوئےہیں چار قتل۔ اور لٹیرےکیا کیا چرا لےگئےابھی تک پوری طرح معلوم نہیں ہوسکا۔ چاروں طرف سےپولیس کی بدنامی ہورہی ہی‘ الزامات کی بھرمار ہے۔ ہر ایرا غیرا آکر پوچھتا ہےکہ شاہ ڈکیتی کےمعاملےمیں پولیس نےکیا اقدام اٹھائےہیں۔ اور تفتیش کہاں تک پہونچی ہی۔ ہر کسی کو جواب دینا پڑتا ہی۔ اخباروں نےتو معاملےکو اتنا اُچھالاہےکہ وزیرِ اعظم بھی پوچھ رہےہیں کہ شاہ ڈکیتی کےمجرم ابھی تک گرفتار کیوں نہیں ہوئےہیں۔ اس لیےپولیس اپنےطور پر جو کچھ کررہی ہےیہ اس کا فرض اور طریقہ کار ہی۔ پولیس اپنےطور پر مجرموں تک پہنچنےکی پوری کوشش کررہی ہی، اور آپ کہہ رہےہیں کہ میں پولیس کو اپنا کام کرنےسےروکوں؟ آپ ملک کےعزّت دار، بااخلاق شہری ہیں پولیس کی مدد کرنا آپ کا فرض ہی۔ اور آپ لوگ پولیس کےکاموں میں دخل دینا چاہتےہیں۔ سوچئےکیا یہ درست ہی؟ میرا آپ کو مشورہ ہےآپ جائیےپولیس کی مدد کیجئےاور پولیس کو اپنےطور پر کام کرنےدیں اس کی تحقیقات میں ٹانگ نہ اڑائیں۔
سب اپنا سا منہ لےکر اپنےاپنےگھر آگئی۔
شام کو پھر بلڈنگ میں پولیس آئی۔
انسپکٹر کا پارہ ساتویں آسمان پر تھا۔
”ہماری شکایت لےکر پولیس کمشنر صاحب کےپاس گئےتھے؟ہم نےتم لوگوں کےساتھ کیا کیا؟ جو تم نےکمشنر سےہماری شکایت کی۔ تم لوگوں کو ہم شریف لوگ سمجھ کر شرافت سےپیش آرہےتھی۔ ورنہ اگر ہم نےپولیس کا اصلی روپ دکھایا تو تم لوگ اپنی زندگی سےپناہ مانگو گی۔ میں اس معاملےمیں سب کو اندر کر سکتا ہوں۔ قانون کو ہاتھ میں لینےکی کوشش مت کرو۔ قانون کےہاتھ بہت لمبےہوتےہیں۔“
وہ انسپکٹر کی ان باتوں کا کیا جواب دےسکتےتھی۔ چپ چاپ اس کی باتیں سن گئےاور اپنی بےعزتی سہہ گئی۔
پولیس کی اپنےطور پر تفتیش شروع ہوئی ۔
وہ اس بار پوچھ تاچھ کچھ اس طرح کررہےتھےجیسےعادی مجرموں کےساتھ تفتیش کررہےہوں۔
خون کا گھونٹ پی کر وہ پولیس کی زیادتیوں کو برداشت کرتے، جہاں ان سےکوئی غلطی ہوتی پولیس والےانھیں گندی گندی ، فحش ، بھدی گالیاں دینےلگتے۔
آدھی رات کو دروازہ، کھٹکھٹا کر گھر میں گھس کر ہر چیز کا جائزہ لینا پولیس کا معمول تھا۔
گیٹ کےپاس کھڑےسپاہی ہر چیز کو شک کی نظروں سےدیکھتےاور بلاوجہ ہر چیز کی تلاشی لےکر ان کےبارےمیں اُلٹےسیدھےسوالات کرتی۔
بلڈنگ کی لڑکیوں اور عورتوں کو ہوسناک نظروں سےدیکھتے۔ انھیں دیکھ کرفقرے کستےاور انھیں متوجہ کرنےکےلیےآپس میں فحش باتیں کرنےلگتی۔
فحش کتابیں پڑھتےرہتےاور ان کی گندی تصویروں کو اس انداز میں پکڑےرہتےکہ بلڈنگ کی عورتوں کی نظریں ان پر پڑ جائیں۔
یہ سب جیسےزندگی کا معمول بن گیا تھا۔
رات کےبارہ بج رہےتھی۔ دروازےپر دستک دےکر پولیس جاچکی تھی۔
لیکن پھر بھی اس کی آنکھوں میں نیند نہیں تھی۔
اسےاندازہ تھا پوری بلڈنگ میں ہر گھر کا کوئی نہ کوئی فرد اسی کی طرح جاگ رہا ہوگا۔ بےخوابی کا شکار ہوگا۔
سب کی حالت اس کی سی تھی۔
باربار اس کی نظریں چھت کی طرف اُٹھ جاتی تھی۔
کیا اس چھت کےنیچےوہ محفوظ ہیں؟
اسی طرح کی ایک جھت کےنیچےشاہ کا خاندان کہاں محفوظ رہ سکا۔ پھر آنکھوں کےسامنےاپنی ٹوٹی چھت کا مکان گھوم جاتا تھا۔ اس چھت کےنیچےسردی میں ٹھٹھرکر، بارش میں بھیگ کر، ہوائوں کےتھپیڑےسہہ کر بھی وہ اپنےگھر والوں کےساتھ گہری میٹھی نیند سوجاتاتھا۔
لیکن اس چھت کےنیچی۔۔۔۔۔!

پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتی
بھیونڈی ٢٠٣١٢٤
ضلع تھانہ( مہاراشٹر)

پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتتی
بھیونڈی ٢٠٣ ١٢٤
ضلع تھانہ ( مہاراشٹر)

M.Mubin

Classic Plaza, Teen Batti

BHIWANDI_ 421302

Dist.Thane Maharashtra India)

Mob:- 09372436628) )

mmubin123@yahoo.com