غزل - ۸

دہر میں نقشِ وفا وجہِ تسلی نہ ہوا
ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندہٴ معنی نہ ہوا
سبزہٴ خط سے ترا کاکلِ سرکش نہ دبا
یہ زمّرد بھی حریفِ دمِ افعی نہ ہوا
میں نے چاہا تھا کہ اندوہِ وفا سے چھوٹوں
وہ ستمگر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا
دل گزر گاہِ خیالِ مے و ساغر ہی سہی
گر نفس جادہٴ سر منزلِ تقویٰ نہ ہوا
ہوں ترے وعدہ نہ کرنے میں بھی راضی کہ کبھی
گوش منت کشِ گلبانگِ تسلی نہ ہوا
کس سے محرومیٴ قسمت کی شکایت کیجے
ہم نے چاہا تھا کہ مر جائیں، سو وہ بھی نہ ہوا
مرگیا صدمہٴ یک جنبشِ لب سے غالب
ناتوانی سے حریفِ دمِ عیسیٰ نہ ہوا
* * * * * *