غزل - ۴۰

آپ آتے تھے، مگر کوئی عناں گیر بھی تھا

اس میں کچھ شائبہٴ خوبیِ تقدیر بھی تھا

کبھی فتراک میں تیرے کوئی نخچیر بھی تھا

ہاں کچھ اک رنجِ گرانباریِ زنجیر بھی تھا

بات کرتے کہ میں لب تشنہٴ تقریر بھی تھا

 گر بگڑ بیٹھے تو میں لائقِ تعزیر بھی تھا

نالہ کرتا تھا، ولے طالبِ تاثیر بھی تھا

ہم ہی آشفتہ سروں میں وہ جوانمیر بھی تھا

 آخر اُس شوخ کے ترکش میں کوئی تیر  بھی تھا

 آدمی کوئی ہمارا َدمِ تحریر بھی تھا؟

 ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا

 تم سے بے جا ہے مجھے اپنی تباہی کا گلہ

 تو مجھے بھول گیا ہو تو پتا بتلا دوں؟

 قید میں ہے ترے وحشی کو وہی زلف کی یاد

بجلی اک کوند گئی آنکھوں کے آگے تو کیا!

 یوسف اس کو کہوں اور کچھ نہ کہے، خیر ہوئی

 دیکھ کر غیر کو ہو کیوں نہ کلیجا ٹھنڈا

 پیشے میں عیب نہیں، رکھیے نہ فرہاد کو نام

 ہم تھے مرنے کو کھڑے، پاس نہ آیا، نہ سہی

 پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق

 ریختے کے تمہیں استاد نہیں ہو غالب

 کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا

* * * * *

لب خشک در تشنگی مردگاں کا

زیارتکدہ ہوں دل آزردگاں کا

ہمہ نا امیدی، ہمہ بد گمانی

 میں دل ہوں فریبِ وفا خوردگاں کا

* * * * *