فتح مکہ: ۶۳۰ء

فتح مکہ: ۶۳۰ء
۶۳۰ء میں قریش مکہ نے بنو خزہ نامی قبیلے پر جو کہ مسلمانوں کی زیر حفا ظت تھا حملہ کر دیا اور اسطرح صلح حدیبیہ کی خلاف ورزی کی متا ثرہ قبیلے نے حضورﷺ سے مدد کی درخواست کی حضورﷺ نے مکہ والوں سے مطالبہ کیا کہ مرنے والوں کا خون بہا ا دا کیا جا ئے اور حملہ آوروں کی پشت پناہی نہ کی جائے یا پھر صلح حدیبیہ کی منسوخی کا اعلان کردیا جائے قریش مکہ نے اس کا جواب نہ دے کر یہ تاثر دیا کہ انہیں صلح میں مزید کو ئی دلچسپی نہیں تھی۔

 قریش کے رویے سے مایوس ہو کر حضورﷺ دس ہزار مجاہدین کا لشکر لے کر مکے کی طرف روانہ ہوئے اسلام اور پیغمبرﷺ کے سخت ترین دشمن، مکہ کے سردار ابوسفیان نے اطاعت کا اعلان کر دیا ایک معمولی تصادم کے سوا کوئی خون خرابہ نہیں ہوا اس فتح میں حضورﷺ نے خانہ کعبہ اور اپنی جائے پیدائش کا قبضہ حاصل کیا۔ عرب کا دل، مکہ حضورﷺ کے قدموں میں بچھا ہوا تھا اور قریش کی طاقت ہمیشہ کے لئے ختم کی جا چکی تھی بدلہ لینے کی بجائے حضورﷺ نے اپنے تمام دشمنوں کو معاف کر دیا پیغمبرﷺ نیکعبہ میں موجود بتوں کو توڑ کر اسے الله کی عبادت کیلئے وقف کر دیا اور خانہ کعبہ کی چابیاں روایتی محافظین کے حوالے کرکے آپﷺنے لو گوں سے فرمایاکہ وہ وہاں اطمینان اور سکون سے آ سکتے ہیں اس برتاؤ نے مکہ والوں کو بے حد متاثر کیا اور آپﷺ کی سخاوت کو عظمت و اخلاق کی انتہائی بلندی تصور کرتے ہوئے آگے بڑھے اور اس حیرت انگیز مذ ہب میں داخل ہونے لگے جس نے نفرتوں کو محبت میں بدل دیا۔